حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سعودی حکومت کی درخواست پر 2011 میں قتل ہونے والے سعودی سفارتکار کے قتل کی دوبارہ تحقیقات کا آگاز کیا جارہا ہے جس میں شامل ایک افسر کا عہدہ بنام آفیسر شیعہ میلیٹنٹ سیل دج ہے جس پر ملت جعفریہ مین شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
اس لیٹر میں سعودی سفارتکار کے قتل کو ایک جانب شیعہ سنی رنگ دے کر شیعے جوانوں کی بلا جواز گرفتاریوں کا مقدمہ بنایا گیا ہے وہیں اس لیٹر میں شیعوں کے میلیٹنٹ ونگ کا بھی اشارہ دیا گیا ہے جو کہ سفید جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں۔
سربراہ امت واحدہ پاکستان علامہ امین شہیدی نے اس لیٹر میں موجود الفاظ پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ کیا پاکستان کے 80 ہزار افراد کا قاتل شیعہ تھا؟، کیا سینکڑوں خودکش بمبار شیعہ تھے؟ کیا ہزارہ کمیونٹی کے ٹارگٹ کلرز شیعہ تھے؟ کیا مساجد و امام بارکاہوں کو بم دماکوں سے اڑانے والے شیعہ تھے؟ کیا سانحہ اے پی ایس پشاور شیعہ کا کارنامہ تھا؟ ان مین سے کسی بھی بھی واقعے میں کوئی شیعہ ملوث نہیں تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس لیٹر میں استعمال ہونے والا لب و لہجہ سعودی مراعات یافتہ اور ریاستی سرپرستی میں پلنے والے تکفیریوں کا ہے۔